اسلامی فقہ میں اجماع کا تصور اور اس کا فقہ کے ارتقاء میں کردار
,

 اسلامی فقہ میں اجماع کا تصور اور اس کا فقہ کے ارتقاء میں کردار

 مسئلے پر متفق ہو جاتے ہیں، اگر وہ مسئلہ قرآن و سنت میں صاف طور پر بیان نہ کیا گیا ہو یا اس کی تشریح میں کوئی اجتہاد (رائے) ضروری ہو۔ اجماع کے ذریعے علماء اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی خاص مسئلے پر تمام علماء کا اتفاق ہے، اور اس پر عمل کرنا صحیح ہے۔ اجماع کی بنیاد قرآن اور حدیث کی تعلیمات پر رکھی گئی ہے اور یہ اسلامی فقہ میں اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات میں کسی قسم کی تفرقہ بازی یا اختلافات نہ ہوں۔

اجماع کی تعریف

اجماع لغوی طور پر “اتفاق” یا “اتفاق رائے” کے معنی میں آتا ہے، لیکن اسلامی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے کہ “امت کے علماء ایک مسئلے پر مکمل طور پر متفق ہو جائیں”۔ یہ ایک ایسا علمی عمل ہے جس کے ذریعے کوئی دینی فیصلہ کیا جاتا ہے جب قرآن و سنت میں اس کا صراحت سے ذکر نہ ہو۔ اجماع صرف علماء کے اندر ہوتا ہے اور اس کے ذریعے امت مسلمہ کے لیے ایک متفقہ رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے

“اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں، صدقوں، شہیدوں اور صالحین میں سے” (النساء: 69)

یہ آیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اجماع میں شامل ہونے والے علماء اور اہلِ علم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی علمی بصیرت سے صحیح فیصلہ کیا۔

اجماع کا فقہ کے ارتقاء میں کردار

فقہ اسلامی کی ارتقائی تاریخ میں اجماع نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ قرآن اور حدیث کے بعد اجماع کو تیسرا اور اہم ترین ماخذ مانا جاتا ہے۔ جب کسی مسئلے پر قرآن و سنت میں کوئی واضح رہنمائی نہ ہو، تو علماء اپنے اجتہاد (رائے) کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالتے ہیں، اور جب یہ رائے تمام علماء کے درمیان اتفاق رائے بن جاتی ہے، تو اسے اجماع کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

اسلامی فقہ کی ابتدا اور اجماع کا کردار

ابتداء میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں شریعت کے مسائل پر فیصلہ کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی، تو صحابہ کرام اور اہلِ علم اس مسئلے کو براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے۔ لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض نئے مسائل اور پیچیدہ مسائل سامنے آئے، تو امت کو ان مسائل کے حل کے لیے اجماع کا سہارا لینا پڑا۔ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں جب نئے مسائل سامنے آئے، ان مسائل پر فیصلہ کرنے کے لیے اجماع کا اصول اپنایا گیا۔

اجماع کا فقہ میں استحکام

فقہاء اور علماء کے اجماع سے یہ یقینی ہوتا ہے کہ جو فیصلہ کیا گیا وہ امت مسلمہ کی اکثریت کے اتفاق سے کیا گیا ہے۔ اس عمل کے ذریعے فقہ میں استحکام آتا ہے، کیونکہ ایک متفقہ رائے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس فیصلے میں اختلافات نہیں ہیں اور یہ رائے قرآن و سنت کے مطابق ہے۔ یہ اجماع اسلامی معاشرت میں ایک اتفاق رائے پیدا کرتا ہے جو امت مسلمہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔

اجماع کی اہمیت

اجماع کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ اسلامی شریعت میں بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے اور اس کے ذریعے شریعت کے اصولوں کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اجماع کے بغیر، مختلف مسائل پر ہر فرد کی اپنی رائے ہو سکتی تھی، جس سے دین اسلام میں تفرقہ پیدا ہو سکتا تھا۔ اسی لیے فقہاء نے اجماع کو ایک مضبوط دینی بنیاد کے طور پر تسلیم کیا۔ اجماع کے ذریعے ایسی پیچیدہ صورت حالوں میں فیصلے کیے جاتے ہیں جہاں قرآن اور حدیث کی صریح ہدایات موجود نہ ہوں۔

اجماع اور عصر حاضر کے مسائل

عصر حاضر میں جب دنیا میں نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، تو ان مسائل پر اجماع کا اطلاق کیا جاتا ہے تاکہ ان مسائل کا حل قرآن و سنت کے مطابق نکالا جا سکے۔ جیسے جیسے دنیا میں سائنسی، ٹیکنالوجی، اور اقتصادی مسائل آ رہے ہیں، ان کے حل کے لیے اجماع کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، جدید بینکنگ سسٹم، سودی کاروبار، اور ٹیکنالوجی کے استعمال جیسے مسائل پر اجماع کے ذریعے ہی اسلامی فقہ نے اپنے اصول مرتب کیے ہیں۔

اجماع کی اقسام

فقہاء نے اجماع کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے

اجماع صریح: جب کسی مسئلے پر تمام علماء کا قطیعتاً اور کھلے طور پر اتفاق ہو۔

اجماع سکوتی: جب کسی مسئلے پر علماء نے کھل کر اظہار رائے نہیں کیا، لیکن خاموشی سے یہ سمجھا جائے کہ وہ اس بات سے متفق ہیں۔

یہ اقسام اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اجماع کا عمل کسی خاص مسئلے پر مکمل متفقہ رائے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

اجماع کی شرائط

اجماع کے قبول ہونے کے لیے کچھ اہم شرائط ضروری ہیں

علماء کی تعداد: اجماع میں شامل ہونے والے علماء کو امت مسلمہ کے معتبر اور اہلِ علم ہونا ضروری ہے۔

اتفاق: اجماع اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک تمام علماء اس پر متفق نہ ہوں۔

آزادانہ رائے: علماء کا اجماع ان کی آزاد رائے سے ہونا چاہیے، یعنی ان پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔

اجماع کا تاریخی پس منظر

اجماع کا تاریخی پس منظر بھی بہت اہم ہے۔ ابتدائی اسلامی دور میں جب صحابہ کرام نے دین اسلام کو پھیلایا، ان کی اجماع کی رائے کو قبول کیا گیا۔ اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے اس اصول کو اپنایا، اور مختلف دینی مسائل پر اجماع قائم کیا۔ اس طرح اجماع نے اسلامی فقہ کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

اجماع کا اطلاق

اجماع کا اطلاق اس وقت کیا جاتا ہے جب قرآن اور حدیث سے کسی مسئلے کا واضح حکم نہ مل رہا ہو۔ اس کے بعد علماء اپنی اجتہادی رائے دیتے ہیں، اور جب یہ رائے اکثریت کی ہو جاتی ہے تو اسے اجماع قرار دیا جاتا ہے۔ اجماع کے ذریعے ایسے مسائل پر فیصلہ کیا جاتا ہے جو جدید دنیا کے چیلنجز کا حصہ ہوتے ہیں۔

نتیجہ

اسلامی فقہ میں اجماع کا تصور انتہائی اہم ہے، اور اس نے نہ صرف ماضی میں بلکہ موجودہ دور میں بھی فقہ کے ارتقاء میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اجماع کی موجودگی سے یہ یقینی ہوتا ہے کہ دین اسلام میں مختلف مسائل پر یکسانیت اور ہم آہنگی ہو۔ یہ امت مسلمہ کے لیے ایک مضبوط اور متفقہ رہنمائی فراہم کرتا ہے، جو مختلف زمانی اور مکانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اجماع اسلامی فقہ کی بنیاد ہے جس کے ذریعے فقہ کا علم مستحکم اور متوازن ہوتا ہے، اور اس سے دین اسلام کے اصولوں کی وضاحت ہوتی ہے جو امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے ضروری ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts