عبادات سے متعلق ہیں، بلکہ سیاسی اور معاشرتی پس منظر میں بھی ان کے اثرات گہرے ہیں۔ یہ فرق بنیادی طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے معاملے پر اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا۔
سنّی اور شیعہ اسلام کے درمیان اہم فرق
خلافت کا مسئلہ
سنّی مسلمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے لیے کسی بھی مسلمان کی اہلیت کو تسلیم کرتے ہیں، بشرطیکہ وہ مسلم امت کے درمیان اتفاق رائے سے منتخب کیا جائے۔ سنّی اسلام میں خلافت کا انتخاب ایک سیاسی عمل سمجھا جاتا ہے اور اس میں کسی خاندان یا نسل کی مخصوصیت نہیں ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ خلافت کی منتخبیت امت کے اجماع سے ہونی چاہیے۔
شیعہ مسلمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو خلافت کا حقدار سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک علی اور ان کی نسل سے آنے والے ائمہ ہی اللہ کے منتخب افراد ہیں، جو دین کی صحیح تشریح کر سکتے ہیں۔ شیعہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی کا انتخاب ایک الہی فیصلہ تھا، اور اس میں کسی قسم کی بشری غلطی کا امکان نہیں۔
اہل بیت کا مقام
شیعہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اہل بیت (یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ) کو خاص روحانی اور دینی مرتبہ حاصل ہے، اور ان کے بارے میں ان کے عقائد میں خصوصی احترام و تقدس کا عنصر ہے۔ یہ عقیدہ ان کے روزمرہ کے اعمال، عبادات اور دینی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔
سنّی مسلمان اہل بیت کا احترام کرتے ہیں، لیکن ان کے عقیدہ میں اہل بیت کو صرف ایک دینی حیثیت میں دیکھا جاتا ہے، نہ کہ کسی مخصوص روحانی رہنمائی کے طور پر۔
عبادات اور رسومات
سنّی اور شیعہ کے درمیان عبادات اور رسومات میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً، شیعہ مسلمان یوم عاشورا (10 محرم) کو نہ صرف عزاداری کے طور پر مناتے ہیں، بلکہ یہ دن ان کے لیے نکتہ نظر اور اصلاح کا دن بھی ہوتا ہے۔ سنّی مسلمان بھی عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے یہاں اس دن کی سیاسی یا عزاداری کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔
شیعہ مسلمان “تسلیم و تشہیر” (اللہ کے فیصلے کو تسلیم کرنا) کی دعا زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جبکہ سنّی نماز میں جو مخصوص اذکار اور افعال ہیں، ان میں کوئی ایسی خاصیئت نہیں ہے۔
تاریخی پس منظر اور اثرات
خلافت کا مسئلہ
خلافت کے مسئلے نے سب سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شدید اختلافات کو جنم دیا۔ سنّی مسلمان ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو خلیفہ منتخب کرتے ہیں، جبکہ شیعہ مسلمان علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو خلیفہ بنانے کے حق میں ہیں۔ اس اختلاف نے نہ صرف سیاسی بلکہ دینی بنیادوں پر دونوں فرقوں کے مابین گہرے اختلافات پیدا کر دیے۔
کربلا کا واقعہ
کربلا کا واقعہ 61ہجری میں پیش آیا، جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو یزید کی فوج کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مرکزی مذہبی علامت بن چکا ہے۔ سنّی مسلمان بھی اس واقعے کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن شیعہ مسلمان اس دن کی یاد کو نہ صرف عزاداری کے طور پر مناتے ہیں بلکہ اس کو ظلم کے خلاف احتجاج اور حقیقت کی علامت کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
اسلامی دنیا پر اثرات
سنّی اور شیعہ اختلافات نے اسلامی دنیا پر کئی اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں سیاسی کشمکش، جنگیں، اور فکری فرق شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، ایران اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ سیاسی اختلافات میں بھی سنّی اور شیعہ تفریق اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ عراق اور یمن میں بھی ان دونوں فرقوں کے مابین تصادمات اور اختلافات کی جڑیں اسی فرقہ واریت میں پوشیدہ ہیں۔
دنیا کے علم میں اسلامی تہذیب کا کردار اور اس کے سائنسی، طبی اور ریاضیاتی میدانوں میں اہم تعاون
اسلامی تہذیب کا دنیا کے علم پر گہرا اثر رہا ہے، اور مسلمانوں نے سائنسی، طبی اور ریاضیاتی میدانوں میں قابل ذکر ترقی کی۔ اس دور میں، جب یورپ میں سائنسی ترقیات محدود تھیں، مسلمانوں نے علم کے میدان میں نئے راستے کھولے اور کئی جدید علوم کا آغاز کیا۔ ان کی تحقیقات اور ایجادات آج بھی دنیا میں معیاری سمجھی جاتی ہیں۔
سائنسی میدان میں تعاون
علم فلکیات
مسلمان فلکیات (Astronomy) کے میدان میں بھی پیش پیش تھے۔ مشہور مسلمان فلکیات دان، ابن شاطر اور البیرونی نے زمین کے مدار، فلکیاتی حسابات اور سیاروں کی حرکت پر تحقیق کی۔ ابن سینا کی کتاب “الشفاء” میں فلکیات کی تفصیلات اور نظریات شامل ہیں جو اس وقت کے یورپ میں عام نہیں تھے۔
کیمیا اور طب
مسلمانوں نے کیمیا (Chemistry) کو ایک سائنسی شعبہ کے طور پر متعارف کرایا۔ جابر بن حیان، جنہیں “کیمیا کا باپ” کہا جاتا ہے، نے کئی تجربات کیے اور متعدد کیمیائی مرکبات کو دریافت کیا۔ ان کی کتاب “الکیمیاء” میں کیمیا کے اصولوں کی تفصیل دی گئی ہے، جو یورپ کے نشاۃ ثانیہ کے دور میں اہمیت اختیار کی۔
طب کے میدان میں بھی مسلمانوں نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ ابن سینا کی کتاب “القانون فی الطب” آج بھی طب کی کلاسیکی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ انہوں نے مختلف بیماریوں کے علاج، ادویات، اور انسانی جسم کے متعلق اہم تحقیق کی۔ ان کے طبی اصول یورپ میں کئی صدیوں تک رائج رہے۔
ریاضی
مسلمانوں نے ریاضی کے میدان میں بھی اہم ترقی کی۔ الخوارزمی کی کتاب “الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ” میں الجبرا کا بنیادی تصور پیش کیا گیا، جو آج دنیا بھر میں ریاضی کی ایک اہم شاخ ہے۔ اسی طرح، ابن ہیثم نے آپٹکس (نظریاتِ روشنی) پر تحقیق کی اور اس کے اصولوں کو درست طور پر بیان کیا۔ ان کی تحقیقات نے سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی۔
میڈیکل سائنسز
مسلمانوں نے میڈیکل سائنسز کے میدان میں نہ صرف اہم ایجادات کیں بلکہ مختلف بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے جدید طریقے وضع کیے۔ ابن زہر اور الرازی نے سرجری اور طب میں قابل ذکر کام کیا۔ ابن زہر نے السر اور خون کے بہاؤ سے متعلق علاج پر تحقیق کی، اور الرازی نے پہلی مرتبہ ذہنی بیماریوں کو علاج کی فیلڈ کے طور پر تسلیم کیا۔
حقیقی دنیا کی مثالیں
اسپین میں مسلم سائنسدانوں کا اثر
اندلس (موجودہ اسپین) میں مسلمانوں کا ایک زبردست دور تھا، جسے “اسلامی سنہری دور” کہا جاتا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں نے طب، فلکیات، ریاضی اور فلسفے میں اہم کام کیا۔ مثال کے طور پر، ابن رشد (Averroes) نے ارسطو کے فلسفے کی تفصیلات اور ترجمہ کیا، جو بعد میں یورپ میں فلسفیانہ انقلاب کا باعث بنا۔
بغداد کا بیت الحکمت
بغداد میں قائم ہونے والا “بیت الحکمت” (House of Wisdom) اسلامی دنیا کا ایک اہم علمی مرکز تھا، جہاں پر مختلف زبانوں میں سائنسی، فلسفیانہ، اور طبی کتابوں کا ترجمہ کیا جاتا تھا۔ یہاں کے مسلمان علما نے مختلف علوم کی تدریس کی اور ان میں نئی تحقیق کی، جس نے عالمی سائنسی ترقی میں مدد کی۔
دمشق اور قاہرہ کے ہسپتال
دمشق اور قاہرہ کے مشہور ہسپتالوں نے مسلمان ڈاکٹروں کے ذریعے دنیا کے دیگر حصوں میں میڈیکل سائنس کے معیار کو بہتر بنایا۔ یہ ہسپتال نہ صرف علاج کے مراکز تھے، بلکہ تعلیمی ادارے بھی تھے جہاں طلباء کو جدید طب سکھائی جاتی تھی۔
نتیجہ
سنّی اور شیعہ اسلام کے درمیان اختلافات نے نہ صرف عقیدہ بلکہ سیاسی، سماجی، اور ثقافتی سطح پر بھی اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ جہاں تک اسلامی تہذیب کا کردار ہے، تو اس نے سائنسی، طبی، اور ریاضیاتی میدانوں میں بے شمار انقلابی کام کیے ہیں جو آج بھی دنیا بھر میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ علمی خدمات آج کی سائنسی اور طبی ترقیات کی بنیاد بن چکی ہیں، اور ان کا اثر عالمی سطح پر موجود ہے۔